میں خد کو میسر کرنا چاہتا تہا
گمنام بستی تہی
رات اندہیری
ہر طرف سناٹہ چھایا ہوا تہا
ایک ویران بستی تہی
میلوں دور شہر سے
دیپ جل رہا تہا
گائوں سے دور کتے بہونک رہے تہے
دیپ کی دیمی سی روشنی
ہزاروں سوال ذہن میں تہے
کمرے کی چھت کو تکتا رہا
مکڑی کے جالے نے پوری ویرانی کی تہی
قلم ہاتھ میں اٹہا لیا
اور لکہنے لگا
بیوفائی کی داستان
وہ داستان جو مجھ پے بیتی تہی
اپنوں کے ظلم اور ستم
تکلیفیں ، اذیتیں ، اور بیروزگاری
پہلی محبت اور عشق کا خمار
اور پہر یوں ہوا کہ میں کہیں کہوگیا
بھت کوشش کی مگر خد کو میسر کر نہیں پایا
آنکہوں سے شاید آنسوؤ ٹپک رہے تہے
دل تیزی سے دہڑک رہی تہی
میرے بالوں میں مٹی اور بکہرے ہوے بال
کیئے ہفتوں سے کنگی نہیں کئی تہی
کپڑے میرے میلے ہوچکے تہے
پہر نظر لگ گئی خمار عشق میں
میں حد سے گذر گیا
وہ چاند جیسی خوبصورت دوشیزہ
آنکہیں کسی طلسمی چراغ کی مانند
چہرہ مکہن کی طرح سفید اور معصوم
ایک محبت سے بہری ہوی روح
جو جنت کی حور جیسی تہی
بیگناہ قتل کی گئی
اس نظام نے کیا انصاف کیا ہوگا
ایک ایسا کنول کا پہول
جو کہلنے سے پہلے مرجھا دیا گیا
ایک ایسا پہول مرجھایا گیا
جس کی خوشبو زعفران اور
گلاب جیسی تہی
معصوم چھرہ گلابوں کا شجر لگتا تہا
وہ کتنا خوبصورت پہر لگتا تہا
اچانک ٹک ٹک کی آواز سنائی دی
میں کہاں تہا مجھے معلوم نہیں
میں خد کو میسر کرنا چاہتا تہا
مگر میری روح میرا ساتھ چہوڑ چکی تہی
قلم ہاتھ میں اور میں فانی دنیا سے
فنا ہوگی
خد کو میسر کرتے کرتے